’آئین بحال تو جج بھی بحال‘
شہزاد ملکبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
شہزاد ملکبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
Wednesday, 05 December, 2007, 15:41 GMT 20:41 PST
جسٹس افتخار چودھری سے فون پر رابطہ ہوتا رہتا ہے: جسٹس رانا بھگوان داس
عبوری آئینی حکم کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کی برطرفی کے نوٹیفکیشنز کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس رانا بھگوان داس نے کہا ہے کہ تمام برطرف جج آئین کی بحالی کے ساتھ ہی اپنے عہدوں پر واپس آ جائیں گے۔
جسٹس رانا بھگوان داس نے کہا کہ یہ ججز اپنے (سرکاری) گھروں میں رہیں گے اس لیے کہ وہ آئینی اور قانونی جج ہیں اور ان کو کوئی بھی یہاں سے ہٹا نہیں سکتا۔
رانا بھگوان داس بھی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں میں شامل ہیں، جنہیں حکومت برطرف کر چکی ہے۔
انہوں نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ نئے پی سی او کے تحت سپریم کورٹ کے جج بننے والوں کو ججز کالونی میں وہ گھر الاٹ کیےگئے ہیں جس میں وہ جج صاحبان رہائش پذیر ہیں جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔
اس سوال کے جواب میں کہ حکومت برطرف کیے جانے والے ججوں کو مراعات نہیں دے گی، رانا بھگوان داس نے کہا کہ یہ بھی ایک بھونڈی حرکت ہے ڈرانے دھمکانے کی۔ ’دنیا میں کوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت یہ معاوضے، پنشن اور الاؤنس اور تنخواہ روک سکیں۔‘
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ملاقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان سے فون پر رابطہ ہوتا ہے روبرو نہیں۔ ’وہ قید تنہائی میں ہیں، ان پر سخت پہرہ ہے، ان کے باہر آنے پر بھی پابندی ہے اور ان سے ملنے پر بھی پابندی ہے۔ باقی ججوں سے آپس میں میل ملاپ ہوتا رہتا ہے‘۔
سیاست دان جو پہلے ان ججوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے اور اب آہستہ آہستہ اس سے ہٹتے جارہے ہیں اس بارے میں برطرف کیے جانے والے سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ وہ اس پر کچھ بھی نہیں کہیں گے سوائے اس کے کہ ’اللہ ہر ایک کو اپنا فرض ادا کرنے کی توفیق دے اور صحیح راہ دکھائے‘۔
وکلاء کی طرف سے آئین اور ججوں کی بحالی کےلیے تحریک کے بارے میں رانا بھگوان داس نے کہا کہ وکلاء میں بالکل دم ہے اور بہت اتحاد ہے، بہت جوش اور لگن ہے۔
’مشکل یہ ہے کہ ان کی لیڈر شپ کو سب کو قید کر دیا گیا ہے۔ جیسے ہی ان کی لیڈرشپ باہر آئے گی یا ان میں موجودہ وکلاء میں سے کوئی لیڈرشپ پیدا ہوگی تو یہ تحریک آگے بڑھے گی، چلے گی اور کامیاب ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ ملک میں آئین کی بحالی کے بعد یہ جج بحال ہو جائیں گے، ’اس لیے کہ اب تک جو غیرآئینی کام ہوا تھا اس کی کوئی قانونی اور آئینی وقعت نہیں رہے گی، سارے جج اور چیف جسٹس بحال ہو جائیں گے۔‘
No comments:
Post a Comment