فوج کی سوچ بدلنا ہو گی: منیر ملک
ریاض سہیلبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ریاض سہیلبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
وکلاء تنظیموں نے جمعرات کو کراچی میں سندھ ہائی کورٹ سمیت تمام ماتحت عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا۔
سپریم کورٹ کے سابق صدر اور وکلاء تحریک کے سرکردہ رہنما منیر اے ملک نے رہائی اور صحتیابی کے بعد پہلی مرتبہ وکلاء کے اجتماع میں شرکت کی۔
سندھ ہائی کورٹ بار کو خطاب کرتے ہوئے منیر ملک نے کہا کہ وکلاء تحریک کے چار پہلو ہیں، جن میں سے دو پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ کے لیے پاکستان کے عوام کے ذہن بدل دیئے ہیں کہ انصاف کیا ہوتا ہے اور انہیں یہ کون فراہم کرسکتا ہے۔ اس طرح وکلاء نے عدلیہ کے ذہن کو بدل دیا ہے ججوں کی اکثریت نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ اب وکلاء کو ان ججوں کا بھی ذہن بدلنا ہے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہے۔
منیر ملک نے کہا کہ وکلاء نے سیاستدانوں کا ذہن بدلنا ہے انہیں یہ بتانا ہے کہ اسلام آباد کا راستہ پاکستان کے شہروں سے گزرتا ہے، باہر سے نہیں ۔ ’ہمیں فوج کا ذہن بدلنا ہے کہ اس کی توپوں کا رخ سرحدوں کے اس پار ہونا چاہئیے اپنے عوام کی طرف نہیں۔‘
جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے کامیاب جدوجہد چلانے والے وکلاء رہنما منیر ملک کا کہنا تھا کہ وکلاء کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ عدلیہ کو تین نومبر کی پوزیشن پر بحال کیا جائے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وکلاء جدوجہد میں سست روی کے بارے میں منیر ملک کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت وکلاء اگلے مورچوں پر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر کی ہلاکت ، الیکشن کی سرگرمیوں اور ملک میں معاشی عدم استحکام کی وجہ سے صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ وہ (وکلاء) پھر آگے ہوں گے اور افتخار محمد چودھری بحال ہوں گے اور عدلیہ آزاد ہوگی۔
جوڈیشل بس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر اعتزاز احسن اور دیگر جج صاحبان سے پابندیاں ہٹتی ہیں تو جج صحابان کو دوبارہ عوام تک لے جائیں گے۔
اسیری کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے منیر ملک نے بتایا کہ جیلرز کا رویہ تو درست تھا، مگر انٹلی جنس ایجنسیوں کا ان پر بہت دباؤ تھا، انہیں درست طبی امداد نہیں دی گئی بلکہ غلط دوائیں فراہم کی گئیں، ’یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان کے میں بات کرنے کے لیے موجود ہوں۔‘
واضح رہے کہ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے بورڈ نے منیر ملک کو تیسرے ایشین ہیومن رائٹس ڈیفنڈر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق صدر اور وکلاء تحریک کے سرکردہ رہنما منیر اے ملک نے رہائی اور صحتیابی کے بعد پہلی مرتبہ وکلاء کے اجتماع میں شرکت کی۔
سندھ ہائی کورٹ بار کو خطاب کرتے ہوئے منیر ملک نے کہا کہ وکلاء تحریک کے چار پہلو ہیں، جن میں سے دو پر انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ کے لیے پاکستان کے عوام کے ذہن بدل دیئے ہیں کہ انصاف کیا ہوتا ہے اور انہیں یہ کون فراہم کرسکتا ہے۔ اس طرح وکلاء نے عدلیہ کے ذہن کو بدل دیا ہے ججوں کی اکثریت نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ اب وکلاء کو ان ججوں کا بھی ذہن بدلنا ہے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہے۔
منیر ملک نے کہا کہ وکلاء نے سیاستدانوں کا ذہن بدلنا ہے انہیں یہ بتانا ہے کہ اسلام آباد کا راستہ پاکستان کے شہروں سے گزرتا ہے، باہر سے نہیں ۔ ’ہمیں فوج کا ذہن بدلنا ہے کہ اس کی توپوں کا رخ سرحدوں کے اس پار ہونا چاہئیے اپنے عوام کی طرف نہیں۔‘
جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے کامیاب جدوجہد چلانے والے وکلاء رہنما منیر ملک کا کہنا تھا کہ وکلاء کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ عدلیہ کو تین نومبر کی پوزیشن پر بحال کیا جائے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وکلاء جدوجہد میں سست روی کے بارے میں منیر ملک کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت وکلاء اگلے مورچوں پر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر کی ہلاکت ، الیکشن کی سرگرمیوں اور ملک میں معاشی عدم استحکام کی وجہ سے صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ وہ (وکلاء) پھر آگے ہوں گے اور افتخار محمد چودھری بحال ہوں گے اور عدلیہ آزاد ہوگی۔
جوڈیشل بس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر اعتزاز احسن اور دیگر جج صاحبان سے پابندیاں ہٹتی ہیں تو جج صحابان کو دوبارہ عوام تک لے جائیں گے۔
اسیری کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے منیر ملک نے بتایا کہ جیلرز کا رویہ تو درست تھا، مگر انٹلی جنس ایجنسیوں کا ان پر بہت دباؤ تھا، انہیں درست طبی امداد نہیں دی گئی بلکہ غلط دوائیں فراہم کی گئیں، ’یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان کے میں بات کرنے کے لیے موجود ہوں۔‘
واضح رہے کہ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے بورڈ نے منیر ملک کو تیسرے ایشین ہیومن رائٹس ڈیفنڈر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment