بحث نہیں بحال کرو: معزول جج
عبدالحئی کاکڑبی بی سی اردوڈاٹ کام، پشاور
عبدالحئی کاکڑبی بی سی اردوڈاٹ کام، پشاور
پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز نے کہا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ کو عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے مہلت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
پشاور میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جسٹس طارق پرویز کا کہنا تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ عدلیہ کو بحال ہونا چاہیئے۔ لہٰذا اب انہیں مزید کسی بھی بحث میں الجھنے کی بجائے فی الفور عدلیہ کو بحال کردینا چاہیئے۔
’عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے تمام جماعتوں کا ذہن صاف ہے اورانہوں نے اس سلسلےمیں سرعام اعلانات بھی کیے تھے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر مزید کسی قسم کی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس بلانے سے پہلے یہ جماعتیں عدلیہ کی بحالی کے بارے میں ایک بِل تیار کرلیں اور پہلے ہی دن اسے پیش کردیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں وکلاء مقدمات کی پیروی کے لیے پیش نہیں ہوتے اور اگر پارلیمنٹ کو عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے مزید مہلت دی گئی تو یہ عمر قید یا پھانسی کی سزا پانے والے ان قیدیوں کیساتھ بڑا ظلم ہوگا جنہوں نے اپنی سزاؤوں کیخلاف اپیل کی درخواستیں داخل کرائی ہیں کیونکہ اسطرح انکے انتظار کرنے کے دن مزید بڑھ جائیں گے۔
تاہم طارق پرویز نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کی بجائے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق کیانی کے ’ایگزیکٹیو آرڈر‘ کےذریعے عدلیہ کی بحالی کے اقدام کو زیادہ ترجیح دینگے کیونکہ صدر مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے صدر کے آئینی اختیارات کی بجائے چیف آف آرمی اسٹاف کی ہی طاقت استعمال کی تھی۔
پشاور میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جسٹس طارق پرویز کا کہنا تھا کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ عدلیہ کو بحال ہونا چاہیئے۔ لہٰذا اب انہیں مزید کسی بھی بحث میں الجھنے کی بجائے فی الفور عدلیہ کو بحال کردینا چاہیئے۔
’عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے تمام جماعتوں کا ذہن صاف ہے اورانہوں نے اس سلسلےمیں سرعام اعلانات بھی کیے تھے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر مزید کسی قسم کی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس بلانے سے پہلے یہ جماعتیں عدلیہ کی بحالی کے بارے میں ایک بِل تیار کرلیں اور پہلے ہی دن اسے پیش کردیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں وکلاء مقدمات کی پیروی کے لیے پیش نہیں ہوتے اور اگر پارلیمنٹ کو عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے مزید مہلت دی گئی تو یہ عمر قید یا پھانسی کی سزا پانے والے ان قیدیوں کیساتھ بڑا ظلم ہوگا جنہوں نے اپنی سزاؤوں کیخلاف اپیل کی درخواستیں داخل کرائی ہیں کیونکہ اسطرح انکے انتظار کرنے کے دن مزید بڑھ جائیں گے۔
تاہم طارق پرویز نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کی بجائے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق کیانی کے ’ایگزیکٹیو آرڈر‘ کےذریعے عدلیہ کی بحالی کے اقدام کو زیادہ ترجیح دینگے کیونکہ صدر مشرف نے تین نومبر کو ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے صدر کے آئینی اختیارات کی بجائے چیف آف آرمی اسٹاف کی ہی طاقت استعمال کی تھی۔
انہوں نے کہا ’آئین میں صدر کو ایمرجنسی لگانے کی اجازت ہے مگر پرویز مشرف نے صدر ہوتے ہوئے اپنےآئینی اختیار کی بجائے چیف آف آرمی اسٹاف کی وہ طاقت استعمال کی جسکا تصور تک آئین میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف اپنے پیشرو کی جانب سے جاری کردہ ایگزیکٹیو آرڈر کو باآسانی واپس لے سکتے ہیں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ اس سے تو فوج پر پھرملک کی سیاست میں مداخلت کرنے کا الزام لگ جائے گا، طارق پرویز کا کہنا تھا کہ ایک ادارہ ہی اپنا حکم بہتر طور پر واپس لے سکتا ہے اور اس طرح کرنے سے فوج اپنے ہی کیے ہوئے غلط اقدام کو ٹھیک کرلے گی۔
نئی پارلیمنٹ کو عدلیہ کی بحالی کے لیے مہلت دینے کے حوالے سے وکلاء رہنماؤں کے متضاد بیانات پر جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ وکلاء رہنماؤں کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
’وکلاء رہنماؤں کے درمیان عدلیہ کی بحالی کے حوالے سےکوئی تضاد موجود نہیں ہے بلکہ وہ سب عدلیہ کی بحالی پر متفق ہیں صرف طریقہ کار پردو مختلف آراء سامنے آئے ہیں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ اس سے تو فوج پر پھرملک کی سیاست میں مداخلت کرنے کا الزام لگ جائے گا، طارق پرویز کا کہنا تھا کہ ایک ادارہ ہی اپنا حکم بہتر طور پر واپس لے سکتا ہے اور اس طرح کرنے سے فوج اپنے ہی کیے ہوئے غلط اقدام کو ٹھیک کرلے گی۔
نئی پارلیمنٹ کو عدلیہ کی بحالی کے لیے مہلت دینے کے حوالے سے وکلاء رہنماؤں کے متضاد بیانات پر جسٹس طارق پرویز نے کہا کہ وکلاء رہنماؤں کے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
’وکلاء رہنماؤں کے درمیان عدلیہ کی بحالی کے حوالے سےکوئی تضاد موجود نہیں ہے بلکہ وہ سب عدلیہ کی بحالی پر متفق ہیں صرف طریقہ کار پردو مختلف آراء سامنے آئے ہیں۔‘
No comments:
Post a Comment